یہ کائنات رنگ و بو باہمی اتحاد و اتفاق پر موقوف ہے۔ اتحاد کے معنی ہیں متحد ہونا ۔ دنیا کی تمام بڑی اقوام نے اس اتحاد سی کی بدولت کامیابیوں اور کامرانیوں کی منازل طے کیں اور آسان شہرت پر اپنا مقام بنایا۔ دراصل یہ حقیقت ہے کہ دنیا ومافیہا کی ہر اتحاد واتفاق کی بدولت ہی اپنا وجود برقرار رکھے ہوۓ ہے۔ مثل مشہور ہے ۔ ایک اکیلا دوگیارہ ۔ یعنی اگر کوئی فرد یا شخص اکیلا ہو تو اس کی حیثیت ایک انسان جتنی ہے ۔لیکن اگر دو ایک (11) مل جائیں تو گیارہوگا ۔ بند سر بنتا ہے، جو اعداد میں ایک سے بہت بڑا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اتحاد واتفاق میں یقینا بہت برکت ہوتی ہے۔ مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان آب ونگ کی ہر چیز کا وجود باہمی کشش پرخصر ہے۔ اگر یہ باہمی کش ختم ہوجائے تو دنیا کا تانا بانا بھر کر رہ جائے ۔

ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے ۔ 

پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں 

عام مشاہدہ ہے کہ جانور بھی مل جل کر گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں ۔ بلے اور دیگر پرندے شہد کی مکھیاں اور یہاں کی کہ چیونٹی جیسی حقیر مخلوق بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتی ہے جب کہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ اس کے لیے تواتفاق کی


اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ ے 

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ 

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ 


ایک مشہور مقولہ ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کی ذات میں جماعتی تقاضے رکھے ہیں۔ وہ اکیلا زندگی بسرنہیں کر سکتا۔ اس کی تمام تر کامیابیوں کا انحصار دوسرے لوگوں کے وجود پر ہے ۔ اس بات کا اندازہ اس چیز سے ہوتا ہے کہ جب ایک جانور کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ پیدا ہوتے ہی دوڑنا، بھاگنا اور رزق کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔اس کے بریکس ایک انسان کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ اسے اگر اکیلا چھوڑ دیا جاۓ تو وہ مر جاۓ گا۔ وہ کافی عرصے تک اپنی ناک پر سے بھی بھی نہیں ہٹاسکتا۔ انسان کی اسی ضرورت کے پیش نظر گاؤں، قبیلے اور ملک وجود میں آئے ہیں کہیں تو رب نے انسان کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے اور کہیں قبیلے اورنسل نے ۔ انسان نے گاؤں، شہر اور ملک بنا کر رہنا شروع کر دیا۔ اس تخصیص نے ایک اور تخصیص کو جنم دیا اور وہ تخصیص یا علاقے ، رنگ ونسل کی تھی ۔ اس تخصیص نے آپس میں خون ریزی اور جنگ وجدل کو جنم دیا۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی ایک قوم دوسری قوم کو زیر کرنے لگی۔ کالا، گورے کو اور گورا، کالے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ اقتدار کے لیے بھی قبیلے، رنگ ونسل کو معار بنایا جانے لگا۔ایسے حالات میں اللہ تعالی نے انبیائے کرام کو بھی مبعوث فرمایا میں آئے ہزاروں اور گئے درس وفادے کے مگر جغرافیائی حدود نے اس چیز کومزید ہوادی اور میز مین مرکز خیر وشر بن گئی اور بنی آدم نے اسے اپنے ہی خون سے آلودہ کر دیا۔ تمام انسان ایک دوسرے سے رنگ نسل ، مذہب واخوت برادری کے رشتے میں منسلک ہیں۔ ان رشتوں کی ڈور بہت نازک ہے۔ پیر دنیا انسانی مزاج کے اختلاف کا نام ہے۔ آپس میں مل جل کر رہنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب باہمی اختلافات کا ۔ بھلایا جائے وگرنہ چھوٹی چھوٹی باتیں آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو اس کائنات کا سارا نظام میں ۔


جذب باہمی کی تلقین کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انسان کامقصد حیات بھی یہی ہے کہ وہ اپنے ہم میں انسانوں سے محبت کرے۔

اسلام سے پہلے بھی انسانیت ، رنگ ونسل اور ذات پات اور فرقوں جیسی چیزوں کے ہاتھوں سے ذلیل و خوار ہوئی تھی ۔ لوگوں میں ذات پات کی تخصیص بہت عام تھی ۔ وہ دوسرے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ اپنے قبیلے، زبان پنسل پرفر کرتے تھے اور دوسروں کو ذلیل و کمتر قرار دے کر ان پر مظالم کے پہاڑ توڑتے تھے۔ اسلام ان تمام تفریق کے خاتمے کے لیے آیا۔ یوں تو آپس کے اختلافات کو بھلانے اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دنیا کے تمام مذاہب نے دی ہے۔ مگر آپس کے اختلافات کو نظر انداز کرنے اور اخوت ومودت کی جو جامع تعلیم اسلام نے دی ہے، وہ دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دی ۔خطبہ الوداع جوکہ انسانی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس میں آپ ﷺ نے فرمایا۔


کسی کالے کو کسی گورے پر کسی عربی کوکسی مجھی پرکوئی فوقیت حاصل نہیں" تمام مسلمان ایک دیوار کی مانند ہیں، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے اور یوں ایک نا قابل تسخیر دیواربن جاتی ہے تمام مسلمانوں کی اخوت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے ۔ لا اله الا الله محمد رسول اللہ ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور م ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کلے کو پڑھنے والے دنیا کے کسی کونے میں کیوں نہ ہوں بھائی بھائی ہیں ۔ میکلمہ طیبہ ان کے مابین ایک روحانی رشتے کو قائم کرتا ہے ۔ جس کے سبب سب کے دکھ اور سکھ ساجھے ہیں ۔ارشاد نبوی ﷺ


تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو جائے تو پورا جسم بخار میں جتلا ہو جا تا ہے۔ مذہب اسلام بھی انسانوں کو آپس میں مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے اور ان کو آپس میں انس ومحبت کا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:


"واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا“(سورة آل عمران۱۰۳)


ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو ۔ دین اسلام اتحاد و اتفاق کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔ جمعہ کی نماز اور نماز عیدین کے وقت مسلمانوں کا اجماع ان کے اتحاد کی مثال ہے۔ اس طرح حج کے موقع پر ایک لباس میں ملبوس لوگوں کا اکٹھا ہونا اتفاق کی ایسی مثال ہے کہ اس جیسی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔حضور ﷺ نے فرمایا: جوشخص جماعت سے الگ ہواوہ برباد ہوا۔ جو بکری ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی بھیڑیے کا شکار بن گئی۔ اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا :


تم مسلمانوں کو باہمی الفت ومحبت میں جسد واحد کی طرح پاؤ گے کہ جس کا ایک حصہ پیار ہوتو پورا جسم تکلیف کا شکار ہو جا تا ہے۔ اتحاد کی اس اہمیت کی وجہ سے حضور ﷺ نے ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار میں روی مواخات قائم کیا اوران کو بھائی بھائی بن جانے کا درس دیا۔


تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان دل میں ایمانی جذ بہ لیے اتحادواتفاق کے ساتھ باہر نکلے تو محض ۳۱۳ افراد نے غزوہ بدر میں دین کی بڑی تعداد کو پچھاڑ دیا۔ وہ رومیوں اور ایرانیوں پر ان کی تمام تر طاقت کے باوجود غالب آ گئے ۔ تمام دنیا ان کے قبضے میں آ گئی اور ہر ایک سے انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ مگر جب غزوہ احد میں ان کے اتحاد میں ذراسی بھی لغزش آئی تو جیتی ہوئی جنگ ہارتا یا۔اسی طرح جب وہ امویوں اور عباسیوں میں تقسیم ہوئے تو تاتاریوں کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی۔ برصغیر میں مسلمانوں نے ہزار سال تک حکومت کی مگر جب میر جعفر اور میر صادق جیسے غدار پیدا ہوئے تو یہ حکومت انگریزوں کے حوالے کرنا پڑی۔ میسور کے سلطان ٹیپوکوانھی غداران وطن کی وجہ سے شکست کھانا پڑی۔ جب سلطان ٹیپو کوشہید کیا گیا تو انگریزوں نے بی صدا بلند کی:


آج ہندوستان ہمارا ہے۔ دراصل قوم افراد کا مجموعہ ہے ۔ ایک فرد کی کسی قوم میں وہی حیثیت ہے جو ایک قطرے کی کسی سمندر میں ہوتی ہے۔ میری سوچ کے مطابق قوم کسی ایک س یا ایک قطعی زمین سے تعلق رکھنے والے افراد سے بنتی ہے ۔ جب کہ مسلمانوں کا نظر بی قومیت

396 اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے مطابق ہر کلمہ گوانسان ملت اسلامیہ کا فرد ہے ۔ خواہ وہ جغرافیائی اعتبار سے ان سے منائی اور کیوں نہ ہو۔ اس لیے اقبال نے اپنی قوم کونصیحت کرتے ہوۓ کہا


اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پرانحصار


خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہائی قوت مذہب سے کام ہے جمعیت تری اقبال کے مطابق تو اسلام کا نظریہ قومیت ہر لحاظ سے اہل مغرب کے نظریہ قومیت سے برتر اور افضل ہے۔ مگر اس کے باوجود آج کل مسلمان زوال پذیر کیوں ہیں ؟ اس کی وجہ ان کے درمیان موجود نفاق ہے ۔ آج مسلمان مختلف طبقوں میں ہے اسے ہیں ۔ سیاسی نفاق ہی کی وجہ سے ہے کہ آج تمام دنیا کے مسلمانوں کو اسرائیلی تگنی کا ناچ نچاۓ ہوۓ ہیں ۔ اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے جب کہ مسلمان ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ۔ عرب ممالک میں بھی نا اتفاقی ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے بناۓ ہوۓ بے معنی سے فرقے ،اس دین اسلام سے زیادہ معتبر ہیں ، جو حضور ﷺ نے ہم تک پہنچایا۔


منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک حرم پاک بھی، اللہ بھی ،قرآن بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں


ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ایمان بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک


کیا زمانے میں پہنے کی یہی باتیں ہیں؟


آج کے دور کے مسلمان فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں ۔شیعہ سنیوں کے خلاف ہیں اور سنی اہل تشیع کے ۔ ہر ایک اپنے فرقے کو درست تصور کرتا ہے اور دوسرے کے فرقے کو غلط خیال کرتا ہے ۔ اسی کشمکش میں بتلا ہوکر آج ایک مسلمان اپنے ہی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ۔جیسا کہ ایک شاعر نے کہا:


میں سیکس کے نام لکھوں جوالم گزررہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں ، میرے لوگ مر رہے ہیں نہیں ہے پس منجر آزمائی ہمیں قتل ہورہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں


کوئی اور تو اگر آج ہم عالمی برادری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتے ہیں ، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اند را تفاق پیدا کر یں اور معمولی تضادات کو نظر انداز کر دیں ۔ ہمیں قائد کے اس اصول پرعمل کرنا چاہیے۔ اتحاد تنظیم اور ایمان اور بقول شاعر اخوت اس کو کہتے ہیں مجھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جاۓ


مسلمان اقوام میں جس قدرلڑائی ،فتنہ اور فساد ہے، اس کا علاج یہی اتحاد عالم اسلام ہے۔ اگر تمام مسلمان یکجا ہوجائیں تمام مسائل کو اپنی قوم سے دور کر نے میں کامیاب ہوں گے۔ علامہ اقبال نے جابجا اپنے کلام میں مسلمانوں کومتحد ہونے اور اپنے معاشرے کو فتنہ وفسادہ لڑائی جھگڑے، خون ریزی جیسے امراض سے پاک کرنے کا درس دیا ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے کوئی اعلی درجے کی تنظیم قائم کی جاۓ ۔ یو۔این۔اد (UNO) اور لیگ آف نیشنز جیسی تنظیموں سے تو امید کرتا ہے جا ہے، کہ وہ بھی مسلمانوں اور عالم اسلام کی بہتری کے لیے تم ہو اقدامات کریں گی ۔ چناں چہ ایسی تنظیم قائم کی جائے جس کا مرکز ایران کا شہر تہران ہوجو نا صرف مسلم قوم کو کیا کرے بلک ان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کوشاں ہو ۔


ے تہراں ہواگر عالم مشرق کا جنیوا


شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جاۓ مؤتمر اسلامی ، رابط اسلامی، اسلامی ترقیاتی بنک اور دیگر تنظیموں اور انجمنوں کی کوششیں پوری طرح سے اسلامی مالک کومتحد کرنے میں کارآمد ثابت نہیں ہو پار ہیں ۔اس کی وجہ ہمارے اپنے مسلمان بھائیوں کی غداری ، بغاوت اور فتنہ وفسادکی روگ تقام سے روگردانی اور باہمی اختلافات کی جڑوں کا مضبوط ہو جاتا ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو اللہ کے نبی محمدﷺ کی تعلیمات واحادی‌