تعلیمات سید ہجویر کی عصری معنویت رضی اللہ عنہ
الحمد لله رب العلمين والعاقبة للمتقين والصلوة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين بسم. الله الرحمن الرحيم (ألا إن أولياء اللہ لاخوف عليهم ولا هم يحزنون (سورة يونس:62)
الصلوة والسلام عليك يا رسول الله
وعلى الك و أصحابك يا حبيب الله الصلوة و السلام عليك يا رسول الله وعلى الك وأصحابك يا محبوب رب العالمين
" تعلیمات سید ہجویر کی عصری معنویت
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا. انہوں نے بحسن و خوبی فریضہ نبوت ادا کیا اور بھٹکی ہوئی مخلوق کو راہ مستقیم پر گامزن کرتے رہے ۔ دروازہ ، نبوت بند ہونے کے بعد یہی ذمہ داری صحابہ گرام، تابعین، تبع تابعین اور اولیاۓ امت نے سنبھالی اور چار دانگ عالم میں اسلام کی شمع روشن کیے رکھی۔ بر صغیر ان خوش نصیب خطوں میں سے ہے جسے اولیاء کرام کے قدوم میمنت لزوم کا شرف نصیب ہوا۔ اور یوں اسلام کی
روشنی سے بت کدہ و ہند کی شب دیجور ، صبح نور سے شاد کام ہوئی۔ بر صغیر میں نور توحید عام کرنے والے ایک عظیم ولی کامل حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمہ اللہ کا اسم گرامی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور اپنے علم و عمل، حسن اخلاق اور شیر میں گفتار سے ہزاروں گمشدگان راہ کو صراط مستقیم پر گامزن فرمایا۔ آپ کی تعلیمات قرآن وسنت اور اقوال آئمہ وصلحاء کے نور سے منور ہیں ۔ آپ نے نہ صرف حصول علم پر زور دیا بلکہ قرآن و حدیث اور اہل علم کے اقوال سے استدلال کرتے ہوۓ معاشرتی برائیوں کو بے نقاب بھی کیا اور انہیں درست کرنے کی راہ بھی دکھائی۔ آپ نے اہلبیت اطہار ، صحابہ کرام اور صلحائے امت کے ادب واحترام کا سبق دیا، ہندوستان کے باسیوں کے
عقائد درست کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے ، انہیں طہارت ، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کا درس دیا ہے اور بالخصوص آداب بند گی اور آداب زندگی پر عالمانہ اور عارفانہ روشنی ڈالی ہے ۔ اس دور پر فتن میں جب کہ اخلاقی گراوٹ اپنی انتہاء کو جا پہنچی ہے اور عصر حاضر کی مادیت زدہ فکر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے سید ہجویر کی تعلیمات جو کہ در اصل نبوی تعلیمات سے مستنیر ہیں ، کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اسلام کے نظام زندگی سے آشنائی حاصل کر سکتے ہیں اور ان تعلیمات کو اپنا کر ہی اپنے خالق و مالک اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔ علاوہ از میں اس مر د درویش کی تعلیمات ملکی و بین الاقوامی مسائل مثلا دہشت گر دی ، شدت پسندی اور تفرقہ بازی جیسے عفریت سے نجات دلا سکتی ہیں۔
* حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ کی تعلیمات کو مختلف عنوانات کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے
1} حضرت سید ہجویر کے نزدیک علم کی ضرورت واہمیت
حضرت سید ہجویر رحمہ الہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "کشف المحجوب کا پہلا باب علم کی فضیلت واہمیت کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ علماء کرام کی فضیلت کو بیان کرتے ہوۓ قرآن پاک کی آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں: إنما يخشى الله من عباده العلماء (سورہ فاطر ، 35: 28) " اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی ( پوری طرح اس سے ڈرتے ہیں عن أنس بن مالك قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : "طلب العلم فريضة على كل مسلم " (ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ)، سنن ابن ماجة، كتب حواشیه : محمود خليل، الناشر :
پھر آپ حدیث پاک بیان فرماتے ہیں :
مكتبة ألي المعالي ، ج:1 ، ص:151) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم کو حاصل کر ناہر مسلمان پر فرض ہے۔
پھر آپ نے ایک اور حدیث ذکر کی ہے : عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " اطلبوا العلم ولو بالصين، فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم " " هذا حديث مثلة مشهور، وإسناده ضعيف "( البيتي، أحمد بن الحسين بن علي بن
موسی السر وجودي الخراساني، أبو كر (المتوفى: 458+)، شعب الایمان، حلقه وراجع نصوصه وخرج أحاديه : الدكتور عبد العلي عبد الحميد حامد أشرف على تحقيقه و تخریج احاديثه : مختار أحمد الندوي ، صاحب الدار السلفية بومباي - الهند الناشر :مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السانية، الطبعة: الأولى 1423 -- - 2003 م، ج3، ص: 193)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم حاصل کرو اگر چہ چین میں ہو، بے شک علم کو حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
حضرت داتا صاحب کا علم پر زور
حضرت سید نا ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے علم و عمل پر بڑا زور دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ علم وہی فرض ہے جس پر عمل ہو سکے ۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی برائی بیان فرمائی ہے جو بے نفع علم کے لئے سرگرداں ہوں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم " اور سکھتے ہیں وہ چیز جو ان کو نقصان پہنچاتی ہے اور نفع نہیں
غیر نافع علم سی پناہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعامانگا کرتے:اللهم إني أعوذبک من علم لا ينفع " اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے " ( ہجویری، علی بن عثمان حضرت داتایج بخش، کشف المحجوب، ص:68) حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : علم کو ہمیشہ عمل کے ساتھ ساتھ ہو نا چاہئے ۔ میں نے عوام کا ایک گروہ ایسا دیکھا ہے جو علم کو عمل پر فضیلت دیتا ہے اور دوسرا گروہ ایسا ہے جو عمل کو علم پر ترجیح دیتا ہے ۔ یہ دونوں عقیدے باطل ہیں۔ کیونکہ عمل بغیر علم کسی طرح بھی عمل کہلانے کا مستحق نہیں۔ عمل وہی صحیح ہو تا ہے جو علم کی روشنی میں حاصل ہو ، اور ایسے ہی عمل سے بندہ ثواب کا مستحق ہو تا ہے ، جیسے کہ نماز ، نماز نہیں ہوتی جب تک نماز قائم کرنے والے کو ارکان طہارت کا علم ، پانی کی پہچان ، قبلہ کی واقفیت ، نیت نماز کی کیفیت اور ارکان نماز کا علم نہ ہو۔ غرض جب عمل کی بنیاد ہی علم پر ہے تو ان دونوں میں تفریق محض جہالت ہے ۔ اس طرح علم کی عمل پر فضیلت سمجھنا بھی غلطی ہے۔ کیو نکہ علم ہے عمل کو علم نہیں کہا جاسکتا۔ (جویری، علی بن عثمان ، کشف المحجوب ، ص:68)
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : تبذ فريق من الذين أوتوا الكتاب كتاب اللي وراء ظهورهم كأنهم لا يعلمون" (سورة البقرة 2: 101)
ترجمہ : اہل کتاب میں سے ایک فریق نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا گویا کہ انہیں علم ہی نہیں۔ عالم بے عمل کو علماء سے خارج قرار دیا گیا۔ جو علم سے دنیا کی عزت اور مرتبہ چاہتا ہے وہ عالم نہیں ہوتا، کیونکہ دنیوی جاہ و مرتبت جہالت کے متعلقات سے ہے ۔ اور علم کے لئے بلند ترین مقام ہے۔
داتا صاحب کی تلقین
حضرت سید ہجویر رحمہ اللہ مخلوق کو خوف خدا کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے "کشف المحجوب " میں ایک ایمان افروز حکایت لکھی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ : بصرہ میں ایک رئیس تھا، وہ اپنے باغ میں گیا، وہاں اس کی نظر اپنے ملازم کی بیوی پر پڑی۔ ملازم کو کسی کام کے بہانہ باہر بھیجا اور عورت سے کہا: دروازے بند کر دو۔ عورت نے کہا میں نے سب دروازے بند کر دیئے مگر ایک دروازہ بند نہیں ہو سکتا۔ رئیس نے پو چھا کہ وہ دروازہ کون سا ہے ؟ عورت نے جواب دیا، جو ہمارے اور خدا کے درمیان ہے ۔ رئیں بہت پشیمان ہوا اور توبہ کی۔ پھر آپ نے حضرت حاتم اسم رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرمایا کہ وہ فرماتے ہیں : میں نے چار چیزوں کا علم حاصل کیا اور تمام دنیا کے علوم سے رہائی پائی۔ ان سے پو چھا گیا، کون سی چار چیزوں کا علم ہے ؟ فرمایا: اول : یہ کہ میں جانا کہ میر ارزق مقدر ہے ، وہ کم یا زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح طلب زیادت سے نجات پائی۔ دوم : میں نے یہ جانا کہ اللہ تعالی کا مجھ پر حق ہے ، اور وہ میرے سوا کوئی ادا نہیں کر سکتا تو میں وہ حق ادا کر نے میں مشغول ہو گیا۔ سوم : میں نے یہ جانا کہ میرا ایک طالب ہے یعنی موت ، جس سے مفر نہیں ، میں نے اس کو پہچان لیا۔ چہارم : میں نے یہ جانا کہ میرا ایک خدا ہے ، وہ میرے حال سے پوری طرح واقف ہے۔ میں اس سے شرمسار رہا اور ناشائستہ افعال سے بچا۔ ( ہجویری، علی بن عثمان حضرت داتا گنج بخش ، کشف المحجوب، ص: 70 ) حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ لوگوں کو علماء سوء اور جاہل صوفیاء سے دور رہنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے ۔ آپ نے شیخ المشائخ یی بن معاذ رازی رحمہ اللہ کا خوبصورت قول نقل فرمایا ہے :
اجتنب صحبة ثلاثة اصناف من الناس العلماء الغافلين والقراء المداهدين والمتصوفة المجاهدين" ترجمہ : تین قسم کے لوگوں سے پر ہیز کرو: غافل علماء خوشامد کرنے والے قاریوں اور جاہل صوفیوں سے ۔ حضرت دا نتائج بخش رحمہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مشکل کام علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے ۔ آپ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو یزید بسطامی رحمہ اللہ نے فرمایا : عملت في المجاهدة ثلاثين سنة فما وجدت شيئا أشد على من العلم ومتابعته "ترجمہ : میں نے تیس سال مجاہدہ کیا مگر مجھے کوئی مشقت علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے زیادہ سخت معلوم نہ ہوئی۔
الانتصر تجھے علم اور اس میں کمال حاصل کر نا چا ہئیے۔( ایضاص: 76،77)
حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ لوگوں کو علماء سوء اور جاہل صوفیاء سے دور رہنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے ۔ آپ نے شیخ المشائخ یی بن معاذ رازی رحمہ اللہ کا خوبصورت قول نقل فرمایا ہے :
قول
اجتنب صحبة ثلاثة اصناف من الناس العلماء الغافلين والقراء المداهدين والمتصوفة المجاهدين" ترجمہ : تین قسم کے لوگوں سے پر ہیز کرو: غافل علماء خوشامد کرنے والے قاریوں اور جاہل صوفیوں سے ۔ حضرت دا نتائج بخش رحمہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مشکل کام علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے ۔ آپ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو یزید بسطامی رحمہ اللہ نے فرمایا : عملت في المجاهدة ثلاثين سنة فما وجدت شيئا أشد على من العلم ومتابعته "ترجمہ : میں نے تیس سال مجاہدہ کیا مگر مجھے کوئی مشقت علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے زیادہ سخت معلوم نہ ہوئی۔
الانتصر تجھے علم اور اس میں کمال حاصل کر نا چا ہئیے۔( ایضاص: 76،77)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ حضرت سید نا ہجویر رحمہ اللہ کے نزدیک علم کو حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے قرآن و حدیث اور اقوال آئمہ سے علم کی ضرورت و اہمیت کو بڑے احسن انداز میں بیان فرمایا ہے، اور مسلمانوں کو عہد ید و قدیم علوم میں کمال اور مہارت حاصل کرنے کی رغبت دلاتی ہے ۔ عصر حاضر میں علم کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔ علم اقوام عالم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے ۔ اب جنگیں میدان جنگ میں نہیں بلکہ کلاس رومز میں لڑی جاتی ہیں۔ آج جو ممالک اور اقوام علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہیں وہ پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ اور جو اقوام جدید و قدیم علوم سے نا آشنا ہیں وہ ذلیل و خوار ہو رہی ہیں ۔ عصر حاضر میں علماء اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدید و قدیم علوم میں مہارت تامہ حاصل کریں اور اسلام کا پیغام امن وسلامتی پوری دنیا میں پہنچائیں ، تاکہ غیر مسلم اسلام کی طرف راغب ہوں اور اسلام کا پوری دنیا میں بول بالا ہو۔
داتا صاحب کے نزدیک تصوف
2)۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری کے نزدیک تصوف کی حقیقت واہمیت حضرت سید ہجویر رحمہ اللہ نے اپنی معرکہ آراء تصنیف "کشف المحجوب" میں تصوف کی حقیقت و معرفت اور ضرورت واہمیت کو بڑے احسن انداز میں بیان فرمایا ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے صوفیاء کی پہچان کرواتے ہوۓ قرآن پاک کی آیت سے استدلال کیاہے۔
ارشاد ربانی ہے:
" وعباد الرحمن الذين يمشون على الأرض حولا وإذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما" (سورة الفرقان، 25: 63) ترجمہ : اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے کلام کر میں تو وہ سلام کر کے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔
تصوف کی اصل حدیث پاک سے بھی ثابت ہے ۔
ایک مرتبہ جبریل امین انسانی شکل میں حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ اور چند سوالات عرض کیے ۔ ان میں ایک سوال احسان کے بارے میں بھی تھا۔ جب میں نے عرض کی :
ما الإحسان قال : أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يرال۔۔۔ الخ ( الاري، حمد بن اسماعیل بن ابراهیم بن المغيرة ابو عبد الله التوفی 12560-)، البائع السمع، حسب ترقيم مع الباري، المرة العاشر : دار الشعب - الطبعة : الأولى ، 1407 -
1987 ، الباب کتاب پر والد في درقم الحد من 150 : 20:11 ) ترجمہ : عرض کیا احسان کیا ہے ؟ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: تم اللہ کی ایسے عبادت کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔۔
مذکورہ حدیث میں عبادت کا جو طریقہ بتایا گیا ہے ، صوفیاء کرام اس طریقہ سے عبادت کرتے ہیں۔
0 Comments