قرض میں سود لینا اور قرض میں تاخیر اور تنگدست کو قرض معاف کر دینے کا بیان
جیسے کہ قرآن میں ہے
يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا إِن كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ ۔فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُوْلِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔ وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ۖ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔
ترجمہ
اے مومن اللہ تعالی سے ڈرو اور اگر تم مومن ہوتو باقی ماندہ سودچھوڑ دو۔ پس اگر تم نے نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ۔ اور اگرتم نے توبہ کر لی تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال ہیں۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اور اگر قرض دار تنگدست ہے تو خوش حالی تک اس کو مہلت دو۔ اور تمہارا صدقہ کر دینا تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اگر تم مومن ہو“۔
قرض کی صورت
ان تین آیات میں سے پہلی دو میں قرض کی صورت میں سود کے ترک کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔ اور تیسری میں تنگ دست کے قرض کے متعلق بیان ہے۔ حضرات مفسرین کرام لکھتے ہیں : مروی ہے کہ بنو ثقیف کا قریش کی ایک شاخ بن مغیرہ کے ذمہ کچھ مال تھا۔ انہوں نے مقررہ مدت ختم ہونے پر اس کی واپسی کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی سود کا بھی مطالبہ کیا۔سود میں سے کچھ و پہلے ہی وصول کر لیاتھا اور کچھ بقایاتھا۔اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ بقیہ سود کا مطالبہ نہ کرو اور نہ ہی اس کی وصولی کروا گرتم ایمان میں کامل ہو۔ اور اگر تم نے بقیہ سود ترک نہ کیا بلکہ اسے لے لیا تو جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں جہنم کی آگ کی بڑی جنگ سے بچنے کیلئے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اور نہ ہی اس کے رسول معظم کی تلوار کا تم سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہو۔ یہ اس وقت ہے جب تم نے اللہ اور اس کے رسول کے منع کرنے کے باوجود اس ممنوعہ کام کا ارتکاب کیا۔ یہ معنی اور مفہوم اس وقت ہوگا جب فاذنوا بالقصر پڑھا جائے (یعنی ہمزہ ساکنہ ہو ) اور اگر فاذنوا " پڑھیں ( ہمزہ ممدودہ ہو) تو معنی یہ ہوگا کہ تم اس جنگ کی خبر دوسروں کو سنادو ۔ مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ تو بنو ثقیف نے کہا : اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کی ہم میں ہمت نہیں ہے۔
تفسیر بیضاوی میں ہے
بیضاوی میں ہے یہ آیت کریمہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ سود لینے والا اگر تو یہ طلب کئے جانے پر وہ توبہ نہیں کرتا اور بدستور سے لیتا ہے تو پھر اس سے قتال کیا جائے جب تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کو تسلیم نہ کرے جس طرح باغی کا معاملہ ہے لیکن یہ آیت سود خوار کے کفر کا تقاضا نہیں کرتی (یعنی سود خوار سود خوری کی وجہ سے کا فرنہیں ہو جاتا ) اور میں (ما جیون رحمتہ اللہ علیہ) اس بارے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذہب کی کتب سے کسی چیز پر مطلع نہیں ہوا۔ بلکہ امام زاہد نے تصریح کی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ فإِن لَّمْ تَفْعَلُوا کا معنی یہ ہے کہ اگر تم سود کی حرمت پر ایمان نہ لائے تو تم کافر ہوگئے۔ اب تم اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا انتظار کرو۔
تفسیر وان تںبتم
وان تبتم۔ اور اگر تم نے سود لینے سے توبہ کر لی۔ اور اس کے حلال ہونے کے عقیدہ سے تائب ہو گئے یا صرف پہلی بات سے توبہ کرلی تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں۔ نہ تم مقروض و مدیون لوگوں پر اس طرح ظلم کرو کہ مقدار قرض سے زیادہ کا مطالبہ کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے کہ تمہیں تمہارا اصل مال واپس نہ دلوایا جائے۔ یعنی اگر تم سود لینے سے باز نہ آئے اور مدیون ومقروض پر ظلم کرتے رہے کہ ان سے برابر سود لینا جاری رکھا تو پھر تمہارا اصل مال تمہارے لئے سالم نہ رہے گا۔ بلکہ تم پر اس طرح ظلم ہو گا کہ اس میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ سود اگر چہ ظاہری طور پر مال کو بڑھاتا نظر آتا ہے۔ لیکن نفس الامر اور حقیقت میں مال کو گھٹا رہا ہے کیونکہ مال میں جو برکت تھی سود لینے کی وجہ سے وہ اڑ گئی ۔ اور اگر تم نے سود کی حالت کے عقیدہ سے توبہ نہ کی۔ تو پھر تم پر ظلم یوں ہوگا کہ تمہیں تمہارا راس المال ( اصل سرمایہ ) بھی نہ ملے گا۔ اور وہ مال فی ( غنیمت) قرار دیا جائے گا۔ کیونکہ حرام کو جان بوجھ کر حلال سمجھنا " ارتداد ہوتا ہے۔ اور مرتد کا مال " مال غنیمت بنتا ہے۔ میرے دل میں اس کی تفسیر اس طرح آئی ہے۔
علامہ بیضاوی کا نکتہ
علامہ بیضادی نے عجب کیا کہ پہلے انہوں نے یوں کہا : " اگر تم نے سود لینے سے توبہ کر لی اور اس کی حلت کے اعتقاد سے بھی تائب ہو گئے۔ پھر آگے چل کر کہا ” اس سے یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ اگر سود لینے والے توبہ نہیں کرتے تو انہیں ان کا اصل مال نہیں ملے گا۔ یہ بات ہمارے قول کے مطابق درست ہے۔ اور یہ کہ سود کی حلت پر اصرار کرنے والا " مرتد ہے اور اس کا مال فی ہے
صاحب کشاف کی تفسیر
صاحب کشاف نے پہلے یوں لکھا: اور اگر تم نے صرف سود لینے سے توبہ کی اور دوسری مرتبہ یہ حکم دیا ۔ اگر سود لینے والے تو بہ نہیں کرتے تو ان کا مال مسلمانوں کیلئے فی ہو جائے گا۔ ان دونوں مفسرین کرام کے علاوہ دیگر حضرات نے دوسری بات کا کوئی ذکر نہ کیا۔ انہوں نے صرف وان تبتم کا معنی یہ کیا ہے۔ اگر تم نے سود لینے سے تو یہ کیا۔
وجہ نزول
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَة یہ آیت بھی بنو ثقیف کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب انہوں نے بنو مغیرہ سے اصل قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اور یہ مطالبہ بڑا ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ تھا، سود لینے سے توبہ کرلی تھی ۔ بنو مغیرہ نے ان سے قرض کی واپسی کیلئے کچھ مہلت مانگی۔ اور کہا ابھی ہمارے حالات تنگ ہیں ، آسانی تک ہمیں مہلت دو۔ آیت کریمہ میں لفظ کان جمہور کی قراءة کے مطابق " تامہ " ہے۔ اور ذُو عُسرۃ اس کا اسم (فاعل) ہے۔ ( خبر کی ضرورت نہیں ) اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ کی قراءۃ میں ناقصہ ہے۔ اور اس میں چھپی ضمیر اس کا اسم جس کا مرجع مقروض ہے دُو عُسر ہے اس کی خبر ہے۔ معنی یہ ہو گا اگر تمہارے قرض داروں میں سے کوئی قرض دار تنگدست ہو یا اگر مدیون تنگدست ہو۔ فنظرة إلى ميسرة یعنی تنگدست ہونے کی صورت میں حکم یا امر یہ ہے کہ اس کے آسودہ حال ہونے تک مہلت دو۔ یعنی اسے قرض خواہو! مقروض کے آسودہ حال ہونے کا انتظار کرو۔ اور اپنے قرض کی واپسی کے مطالبہ میں جلد بازی سے کام نہ لو۔ کیونکہ وہ بیچارہ اس بارے میں پریشان ہے۔
صاحب ہدایہ کا تمسک
اس آیت کریمہ سے صاحب ہدایہ نے اکثر مقامات پر تمسک فرمایا۔ مثلاً کتاب ادب القاضی میں لکھتے ہیں : قاضی سے جب قرض لینے والا اس بات کا مطالبہ کرے کہ میں نے مقروض سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن وہ انکاری ہے، آپ اسے جیل بھیج دیں تو قاضی اس مطالبہ پر مدیوں کو جیل بھیج دینے کا حکم دے گا۔
(بحوالہ تفسیرات احمدیہ صفحہ نمبر 264.265)
0 Comments