تصوف کی اصل حقیقت

 

مسکینوں اور صا برفقیروں سے محبت :

 

حضرت شیخ ابوزرعہ طاہر بن ابی الفضل  نے اپنے مشائخ سے بالا سناد حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت کردہ یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر چیز کی ایک کنجی ہوتی ہے۔ جنت کی کنجی مسکینوں اور صابرفقیروں سے محبت کرنا ہے۔ قیامت کے دن یہی لوگ اللہ کے ہمنشین ہوں گےفقر تصوف کی اصل حقیقت میں داخل ہے۔ یہ اس کی بنیاد اور لازمی جزو ہے۔

 

 حضرت رویم  نے فرمایا: ” تصوف کے تین خصائل ہیں:

تصوف کے تین خصائل :

ه_فقر ومحتاجی کو اختیار کرنا ،

سخاوت وایثار کرنا ،

 تعرض ( مشغولیت اور اختیار کو چھوڑ دینا۔

 تصوف کیا ہے؟

۔ حضرت جنید بغدادی  سے جب تصوف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: تصوف یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی قسم کے بغیر رہو0

حضرت معروف کرخی نے فرمایا:

تصوف حقائق کو اختیار کرنے اورلوگوں کی ملکیت چیزوں سے کچھ اُمید نہ رکھنا ، اور جوشخص صاحب فقر نہیں ، وہ صاحب

تصوف نہیں ہے ۔

 

فقیر کون ہے؟ ۔


حضرت کی  سے پوچھا گیا کہ فقیر کی اصل حقیقت کیا ہے؟ تو فرمایا:

فقیر وہ ہے جو تعالی کے سواکسی کی پرواہ نہ کرے۔ حضرت ابوالحسین النوری  نے ارشادفرمایا: فقیر کی تعریف یہ ہے کہ جب اس کے پاس کچھ نہ ہو ( مفلس ہو ) تو مطمئن و پرسکون ہو ۔ جب مال ہو تو سخاوت -ایک اور بزرگ نے فرمایا:

وایثار سے کام لے“۔

فقیر وہ ہے جو دولت مندی سے پرہیز کرتا ہے اس ڈر سے کہ دولت اس کے پاس آ کر اس کے فقر کو تباہ نہ کر دے، جس طرح دولت مند کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں فقر آ کر اس کی دولت مندی کو تباہ نہ کر دے۔ مندرجہ بالا اسناد کے حوالے سے مظفر القرمیسینی کا ارشاد منقول ہے:

فقیر وہ ہے جو اللہ کے سامنے کوئی حاجت نہ پیش کرے۔

اور فرمایا کہ میں نے ابوبکر المصری  کے سے فقیر کی تعریف پوچھی تو فرمانے لگے: فقیر وہ ہے جونہ کسی کا مالک ہو اور نہ کوئی اس کا مالک ہو ۔

یہ جو کہا گیا فقیر اللہ کے سامنے کوئی حاجت نہ پیش کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فقیر ہمیشہ اپنی بندگی کے فرائض میں مشغول رہتا ہے۔ اسے اپنے رب پر پورا بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ اسے خوب جانتا ہے اور اس کی حفاظت اچھی طرح کرتا ہے، اس لیے اسے اپنی حاجت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ۔ وہ بجھتا ہے کہ اللہ کو اس کے حال کا بخوبی علم ہے،اس لیے وہ سوال و حاجت کرنے کو فضول جانتا ہے۔

 

فقر وتصوف کے معانی میں اشتباہ :

 

فقر و تصوف کے بارے میں مشائخ کرام نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے ،جن کے معانی ومراد بھی مختلف ہیں۔اپنی اپنی راۓ میں انہوں نے جن احوال کی طرف اشارہ کیا ہے، بی اشارے کسی ایک وقت اور حالت و کیفیت کے لیے خاص ہیں، جبکہ دوسرے وقت اور کیفیت سے مختلف ہیں ۔ لہذا مختلف اقوال میں امتیاز کرنے کے لیے اور ان میں فرق کرنے کے لیے چند قواعد وضوابط اختیارکرنا ہوں گے۔اس لیے کہ: - اتفاق سے تصوف کے معانی بیان کرتے ہوئے بہت کی آرا ء ایک ساتھ بیان کر دی گئی ہیں ، جو کہ فقر کے منافی ہیں۔

-اسی طرح فقر کے معافی بیان کرتے ہوئے بہت کی آراء ایسی پیش کی گئی ہیں جو کہ تصوف کے منافی ہیں ۔

 

فقر اور تصوف میں فرق: اب فقر اور تصوف کے بارے میں وضاحت کی جاتی ہے، فقر اختیار کر کے فقیر اسے بہت بڑی فضیات کہتا ہے اور اسے ثروت و دولت مندی پر ترجیح دیتا ہے، کیونکہ اسے علم ہے کہ اللہ نے فقر کا کیا اجر وصلہ رکھا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:

 ”میری امت کے فقراء دولت مندوں سے نصف یوم پہلے جنت میں داخل ہوں گے ، وہاں کا نصف یوم اس دنیا کے پانچ سوسال کے برابر ہوگا‘ ۔

جیسے ہی انہوں نے آخرت کا بدلہ دیکھ لیا یعنی غیر فانی ثواب (

عوض باقی ) کی توقع میں فانی دنیا کو چھوڑ دیا ہے اور فقر و افلاس کواختیار کر لیا ہے ۔ انہیں بیٹھی ڈر ہے کہ اگر ان کا فقر جا تا رہاتو کہیں ہم سے فقر کی فضیلت اور اس کا اجر نہ جا تار ہے۔ صوفیاء میں بی طریقہ عین اعلال ( یعنی علت و سبب کو کام میں لانا ) کہلا تا ہے، یعنی انہوں نے فقر کو اجر کے سبب اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ ان فقراء نے ہمیشہ فقر کے اجر کو پیش نظر رکھا ہے اور اسی وجہ سے دنیا سے بے رغبتی اختیار کر لی ہے ۔

 

طریق صوفیاء بطریق فقراء سے الگ تھلگ ہے: فقیر کیونکہ عوض کی توقع رکھتا ہے اور اسی مقصد کے لیے اس نے دنیا سے بے رغبتی اختیار کی ہے ۔ مگر صوفی کسی متوقع عوض کے بغیر اپنے موجودہ حال اور جذ بے کے مطابق تمام چیزوں کوترک کر دیتا ہے۔

فقیر ، لذت فقر کے حصول کے لیے فقر کی طرف ارادے اور اختیار سے لوٹتا ہے ۔ یہ لذت فقر ، فقر کی طرف لوٹنے کا سبب ہے، جبکہ صوفی کے حال میں صوفی کے ارادے اور اختیار کوکوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کے معاملے میں ارادہ واختیار ایک علت ہے، وہ تمام اشیاء میں اردہ الہی کے تحت قیام پذیر ہوتا ہے، اسے نہ فقر کی صورت میں فضیلت دکھائی دیتی ہے اور نہ غنا کی صورت میں نظر آتی ہے ، اس کے لیے فضیلت اس چیز میں ہے جو اسے بارگاہ الہی سے عطا ہوئی ہے۔ اس کی توفیق بھی اسے حق تعالی نے بخشی ہے، وہ خودکواسی میں شامل رکھتا ہے ، اسے یقین ہے کہ اس کی بی شمولیت اللہ تعالی کے حکم کے تحت ہے۔ کبھی وہ حکم الہی سے فقر کے خلاف آسودہ حال ہو جا تا ہے ، اور اس آسودگی میں بھی اپنے لیے فضیلت پاتا ہے۔ کیونکہ آسودگی بھی اللہ ہی کے حکم سے ہے، اس کے اپنے ارادہ واختیار کی وجہ سے نہیں ۔ جب وہ آسودگی کی وسعت میں آ تا ہے تو اس کی مزید کشادگی کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا۔

 

آسودگی کی زندگی صرف بچے بندوں کو بسر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ، وہ بھی اسی صورت میں جب وہ اذین الہی کے علم میں پختہ ہو جاتے ہیں ۔ ورنہ اس وسعت کے حال میں اکثر لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں ۔ اور بہت سے مدعی قرب کا دعوی کرنے لگتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحب حال جب کسی حال میں مبتلا ہوتا ہے تو اس میں اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا

اس طرح ان کی اصل حقیقت جاننے کے لیے لوگوں کو اشتباہ ہو گیا ،لہذا ایک جامع تعریف کی ضرورت محسوس کی گئی۔ کیونکہ فقر بھی زہد کے مفہوم میں ، اور بھی تصوف کے مفہوم میں بیان ہوا۔ اس لیے ایک طالب حقیقت کے لیے ایک معنی سے دوسرے معنی میں امتیاز کرنا دشوار ہو گیا ۔ ان میں امتیاز اور فرق کرنے کے لیے تصوف کی جامع تعریف بیان کی جاتی ہے ۔

 

تصوف کی اصل حقیقت:

 

تصوف اور فقر وزہد تینوں مختلف چیزیں ہیں ۔ تصوف اور زہر، دونوں غیر فقیر ہیں جبکہ تصوف غیر زہد ہے، چنانچ تصوف ، فقر و زہر دونوں کے معانی کا جامع ہے۔ تصوف میں فقر وزاہد کے تمام اوصاف واجزاء موجود ہیں ۔ان کے ساتھ ساتھ تصوف میں ایسے اضافی اوصاف بھی ہیں جن کے بغیر کوئی بند صوفی نہیں ہوسکتا ،خواہ و فقیر زاہد کیوں نہ ہو ۔ حضرت ابوحفص  نے تصوف کے بارے میں فرمایا: ”جس کے دل میں خشوع و خضوع ہے اس کے اعضاء بھی خشوع وخضوع والے ہوں گے۔ شیخ رضی الدین احمد بن اسماعیل  نے مختلف راویوں سے بالا سناد عبداللہ بن علی  کی روایت سے یہ سنا کہ شیخ ابوند الحریری  سے تصوف کے بارے میں استفسار کیا گیا کہ تصوف کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہ اعلی اخلاق کو اپنالینا اور ہر پست اخلاق کو چھوڑ دینا تصوف ہے۔ اپنی فضیلتوں کے باوجود فقر کی انتہا تصوف کی ابتداء ہے۔ تاہم صوفیاء ومشائخ ملک شام ، تصوف اور فقر میں کوئی امتیاز محسوس نہیں کرتے ، وہ کہتے ہیں کہ درج ذیل ارشاد باری جو صوفیاء کرام کے بارے میں ہے، اللہ نے ان کا نام فقرا رکھا ہے: للفقراء الذين أخصروا في سبيل الله – ( پاره ۱۳، رکوع ۷:۵ ) یہ ان فقراء کے لیے ہے جواللہ کی راہ میں محصور ہو گئے ہیں۔

 

تصوف سراپا آداب کا مجموعہ ہے ،اس میں ہر وقت کے لیے ایک ادب ہے، اور ہر حال کے لیے ایک ادب ہے اور ہر مقام کے لیے ایک ادب ہے، جس شخص نے اوقات کے ان آداب کی پابندی کی وہ مردوں کے درجہ کو پہنچ گیا ، اور جس شخص نے ان آداب کا خیال نہ رکھا، انہیں ضائع کر دیا، وہ مقام قرب سے دور ہا اور اسے قبولیت کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

 

آپ  نے یہ بھی فرمایا: ”ظاہری حسن ادب، باطنی حسن ادب کی نشانی ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:

 

جب تصوف کا مفہوم متفق ہو گیا کہ اس میں اخلاق تبدیل ہوکر اعلی معیار پر پہنچ جاتے ہیں تو اس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ تصوف فقر وزہد دونوں سے بلند تر ہے، اس لیے کہا گیا:

اپنی فضیلتوں کے باوجود فقر کی انتہا تصوف کی ابتدا ہے

(بحوالہ عوارف المعارف صفحہ 98 تا 101)