تقویٰ اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں بھی اور بالخصوص سفر کی دعا میں تقوی کو شامل فرماتے ارشاد فرمایا اللهم انا نسألك في سفرنا هذا البر والتقوى ومن العمل ماترضى ، اللهم هون علينا سفرنا لهذا و اطو عنا بعده اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل
اے اللہ ہم سوال کرتے ہیں
اے اللہ ہم اپنے اس سفر میں نیکی اور تقوی اور تیرے پسندیدہ عمل کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ہمارے لئے اس سفر کو آسان فرما۔ اس کی دوری کو لپیٹ دے، اے اللہ تو ہی سفر میں ہمارا ساتھی ہے ، گھر والوں میں ہمارا نائب ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسافر کو الوداع فرماتے تو اسے یوں دعا دیتے۔
زودك الله التقوى
کہ اللہ تعالی تجھے تقوی کا زاد سفر عطا فرماۓ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے معاملے نصیحت فرمائی اور
ارشاد فرمایا
بايها الناس اتقو الله في النساء
اے لوگوں خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ یہ کمزور مخلوق ہیں کہیں ان پر ظلم نہ کر بیٹھنا بلکہ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تجار کو وصیت و نصیحت فرمائی تو ان سے خطاب کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا: عن عبيد بن رفاعة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال التجار يحشرون يوم القيامة فجاراإلا من اتقى وير وصدق
ترجمہ
کہ اے تاجر و قیامت کے دن سارے تاجر فاسق و فاجر کی شکل میں اٹھاۓ جائیں گے سواۓ ان کے جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور نیکی کی اور سچائی سے اپنا سودا بیچتے رہے۔
ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: من أكرم الناس کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ عزت والا کون ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتقاهم
جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
إن أكرمكم عند الله أتشكم
صحابی فرماتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں واعظ فرمایا: وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم موعظة بليغة وجلت منها القلوب وذرفت منها العيون لعلها موعظة مودع أوصنا يارسول الله صلى الله عليه وسلم اوصيكم بتقوى الله فانه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا
ترجمہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی کہ جس سے دل لرز اٹھے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تو ہم نے کہا کہ ایسے لگتا ہے جیسے یہ الوداعی خطاب ہے پھر صحابہ نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں وصیت فرمائیں تو اس وقت آخری خطبے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی وصیت فرمائی کہ میں تمہیں اللہ تعالی سے ڈرنے اور تقوی اختیار کرنے کی وصیت کر تا ہوں پس تم میں سے جو بھی میرے بعد جیتا رہا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا یہ دنیا بدل جاۓ گی اور دنیا کی زیب و زینت لوگوں کے دلوں میں داخل ہو جاۓ گی اور لوگ فتنہ میں مبتلا ہوں گے اور دنیا پرستی میں چلے جائیں گے اس لیے تم اللہ سے ڈرتے رہنا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ وصیت ہے جو ہر وقت ہمیں اس بات پر ابھارتی ہے کہ ہم اللہ تعالی سے تقوی کا سوال کر میں اور اللہ تعالی کے خوف اور خشیت کو طلب کریں تا کہ اللہ ہماری زندگی کو بھی تقوی کے نور
سے منور فرماۓ۔
اللہ ہمارا حامی وناصر ہو
0 Comments