سیرت نبوی صلی الله عليه وعلى آله وأصحبه وسلم



لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة (سورۃ الاحزاب آیت: 21 )

 بے شک تمہارے لیے اللہ کے حضرت محمد رسول الله خاتم النّبين صلى الله عليه وعلى آله واصحبہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے ۔ آپ صلی الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم بہترین اخلاق واوصاف کے مالک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحبہ وسلم کا کردار بنی نوع انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ جسے قرآن نے اسوہ حسنہ کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالی حضرت محمدرسول اللہ خاتم النّبين صلى الله عليه وعلى آله وأصحبہ وسلم کی کی ایک سنت کو قیامت تک کے لئے روشن اور محفوظ کر دیا ہے ۔ پیمبر اعظم وآخر صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے تمام گوشوں کا احاطہ ناممکن ہے ۔ یہاں بعض اہم پہلوؤں کا مختصر تذکرہ کیا جا تا ہے:


1.انسان کامل

 انسان زندگی کے کسی بھی دور میں ہو، اور اسے زندگی کے کسی بھی مرحلے پرصحیح مکمل اور بہترین عملی نمونہ حیات کی ضرورت محسوس ہوتو پیغمبر اسلام حضرت محمدرسول الله خاتم التبين صلى الله علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کی حیات طیبہ کو ہی اپنے لیے بہترین راہنما اور کامل ترین معلم پائے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ 

إنك لعلى خلق عظيم O (سورہ قلم آیت:4)


آپ صلی الله عليه وعلى آله وأصحبه وسلم بلا شبہ خلق عظیم کے درجے پر فائز ہیں ۔

 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے یہ الفاظ حضوراکرم صلی الله عليه وعلى آله واصحبہ وسلم کے خلق عظیم کے آئینہ دار ہیں ۔

 كان خلقه القرآن ”

 آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔“


پرکشش شخصیت: 

پیغمبر آخرالزمان حضرت محمدرسول الله عالم التبين صلى الله عليه وعلى آله و صحبه وسلم تمام انبیاء علیم کے حسن وخوبصورتی کا مرقع اور جامع تصویر تھے ۔ ہندہ بن ہالہ کہتے ہیں کہ :


ابوقر صافہ“ کی والدہ اور خالہ کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ حضرت محمد رسول اللہ خاتم النّبيين صلى الله عليه وعلى آله واصحبہ وسلم سے زیادہ خوب رو کسی کو نہیں دیکھا“۔ ربیع بن معود بیان کرتی ہیں کہ:اگر تم

محمد الله خاتم البيين صلى الله عليه وعلى آله و صحبه وسلم کو دیکھتے تو سمجھتے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے ۔


3. حسن سلوک اور سماجی رابطے:

 اللہ کے حضرت محمد رسول اللہ خاتم النّبيين صلى الله عليه وعلى آله وأصحبه وسلم شفیق ، مہربان، اور خلیق تھے۔اپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحبہ وسلم کی شفقت اور محبت آمیز سلوک کا اثر تھا کہ زید بن حارثہ نے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ:


میں دس سال آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کی خدمت میں رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصلیہ وسلم نے مجھے کبھی اف تک نہ کہی ۔ آپ صلی الله عليه وعلى آله وأصحبہ وسلم راستے میں ملنے والوں سے سلام میں پہل کرتے ۔ آپ صلی الله عليه وعلى آله وأصحبه وسلم نہ صرف ہدیہ قبول کرتے بلکہ جواب ہدیہ بھیجتے ۔ بیماروں کی عیادت کے لئے اہتمام سے جاتے ۔ بوڑھوں کا احترام کرتے ۔ اقربا کا خیال رکھتے الغرض آپ صلی اللہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کی عادات واطوار پھولوں کے گلدستہ کی مانندتھیں ۔

4. شرم و حیا 

حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبيين صلى الله عليه وعلى آله واصحبہ وسلم میں دوشیزاؤں سے بڑھ کر شرم و حیاتی آنکھیں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے۔


5.ایفاۓ عہد :

 حضرت محمد رسول الله خاتم النبيين صلى الله عليه وعلى اله واصحبہ وسلم ایفائے عہد کواپنی زندگی کا عزیز ترین فرض سمجھتے تھے ۔ مکہ کے

ایک شخص  ابو بصیر  حلقہ بگوش اسلام ہوکر مدینے حاضر ہوئے تو حدیبیہ کے مطابق انہیں واپس لوٹاتے ہوئے آپ صلی الله عليه وعلى الہ وسلم

نے فرمایا کہ ہمارے دین میں وعدہ شکنی نہیں تم واپس جاؤ۔


 زہد وعبادت:

 حضرت محمد رسول الله خاتم البين صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم کی ساری زندگی عبادت میں بسر ہوئی ۔ ایک بار نے اللہ کے حضور فرمائی 

یا الہی ! میں ایک دن بھوکارہوں ، ایک دن کھانے کو ملے ، بھوک میں تیرے سامنے گڑ گڑایا کروں ، تجھ سے مانگا کروں اور کھا کر تیری حمدوثنا کروں ۔“


 سخاوت:

 حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبيين صلى الله علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کی سخاوت و فیاضی کا یہ عالم تھاکہ عمر بھر بھی کسی سائل کو نہ جھڑ کا اور نہ کبھی خالی ہاتھ لوٹایا ۔ حضرت ابن عباس  کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے۔ 

صبر وتوکل: 

آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کی پوری سیرت مبارک صبر وشکر اوراللہ پر توکل کا مکمل ترین نقشہ پیش کرتی ہے ۔ حضرت رسول الله خاتم النّبيين صلى الله عليه وعلى آله وأصحبه وسلم کو جس قدر تکالیف ، اذیتوں اور ابتلاؤں کا سامنا کرناپڑا، وہ کسی اور فر د بشر کے حصے میں نہیں آئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحبہ وسلم کے قدم زندگی کے کسی مرحلے پر نہ ڈگمگائے ۔ نہ افلاس نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کو دنیا کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا اور نہ فتح وغلبہ کا گھمنڈ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ وسلم کو راہ راست سے ہٹا سکا۔


عدل: 

آپ صلی الله عليه وعلى آله وأصليه وسلم عدل وانصاف کے پیکر تھے ۔ آپ صلی الله عليه وعلى آله وأصليه وسلم عدل میں امیرو غریب ،رنگ ونسل ، چھوٹے بڑے ، آقا وغلام، اور اپنے و بیگانے میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ مکہ میں بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کا

ارتکاب کیا تولوگوں نے حضرت اسامہ ﷺ سے سفارش کرائی ۔ اس پر حضرت محمدرسول اللہ خاتم النبي صلى الله عليه وعلی آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: کیاتم حدود الہی میں سفارش کر تے ہو ،تو اگر فاطمہ بنت محمد (صلی الله عليه وعلى آله وأصحبہ وسلم) بھی ایسا کرتی تو بھی میں حد جاری کرتا۔‘ 

حلم و انکسار

 حضرت محمدرسول الله خاتم النّبين صلى الله عليه وعلى آله وصحيه وسلم حلم وانکساری کے پیکر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ عليه وسلم نے زندگی بھر بھی کسی سے زیادتی کا بدلہ نہیں لیا۔ بلکہ ہمیشہ سب کو معاف فرمادیتے ۔ عدی بن حاتم جو عیسائی تھے حضرت محمد رسول اللہ خاتم بين صلى الله عليه وعلى آله وصحبہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو آپ صلی الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم، عدی کو اپنے گھرلے گئے۔گھر میں چمڑے کا ایک سرہانہ تھا ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحبہ وسلم نے عدی کی طرف بڑھایا۔ اور خود زمین پر بیٹھے۔عدی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔


ذوق مزاح اور خوش مزاجی:

 آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحبہ وسلم شگفتہ مزاج تھے۔ کبھی کبھار مزاح بھی فرمالیتے۔ لیکن اس میں نہ کوئی بات حق کے خلاف ہوتی نہ کسی کی تضحیک ہوتی ۔ایک سائل نے سواری کے لئے اونٹ مانگا تو فرمایا ہم تمہیں اوٹنی کا بچہ دیں گے ۔ وہ پریشان ہوکر کہنے لگا میں اس کا کیا کرو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے ۔