فرشتوں پر انسان کی برتری اور کفار کا ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے کا بیان
إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَ آلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمُرانَ عَلَى الْعَلَمِينَ ذريةٌ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَميعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ
اللہ تعالی نے یقیناً آدم نوح آل ابراہیم اور آل عمران کو دنیا والوں پر چن لیا ہے۔ بعض بعض کی اولاد ہیں۔ اوراللہ تعالی سنے والا جانے والا ہے
آیت کریمہ کا لفظ اِنَّ اللهَ اصْطَفی اس پر دلالت کر رہا ہے۔ کہ بشر (انسان ) کی فرشتوں پر تفصیل ہے۔ یعنی "انسان" فرشتوں سے افضل ہے۔ یہ دلالت اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرات آدم نوح آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں (جہان والوں ) پر تفصیل کی صراحت فرمائی ۔ حضرت آدم اور حضرت نوح علیہا السلام دونوں پیغمبر ہیں۔ اور آل ابراہیم وآل عمران سے مراد اگر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اور عمران ہیں۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پیغبر ہیں۔ لیکن عمران پیغمبر نہیں۔ اوراگر آل سے دونوں جگہ مراد ان کی ذریت (اولاد) ہے تو پھر واضح ہے کہ ان دونوں کی اولاد میں سے کچھ حضرات تو پیغمبر ہوئے اور دوسرے غیر پیغمبر تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ " آل ابراہیم سے مراد حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہا السلام اور ان دونوں کی اولاد ہے۔ جس میں حضور سرور کائنات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی داخل ہیں۔ اور آل عمران" سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام ہیں۔ جو دونوں عمران کے صاحبزادے ہیں۔ یا آل عمران سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام اور مریم بنت عمران ہیں ۔ ان دونوں عمران نامی اشخاص کے درمیان تقریباً اٹھارہ سو سال کا وقفہ ہے۔ مختصر یہ کہ اس آیت سے یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ حضرات انبیائے کرام اور ان کے علاوہ دیگر انسانوں کی تمام عالم پر تفضیل ہے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ فرشتے بھی ایک عالم ہیں۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ بشر کی ملائکہ پر تفصیل ہے۔
تفصیل
پھر اس تفضیل میں بھی تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ انسانوں میں سے حضرات مرسلین کرام ان فرشتوں سے افضل ہیں جو رسل الملائکہ " کہلاتے ہیں۔ اور رسل الملائکہ عام انسانوں سے افضل ہیں ۔ اور عام انسان عام فرشتوں سے افضل ہیں۔ آیت کریمہ کا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ جنس بشر کی جنس ملائکہ پر تفصیل ہے۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ انسانوں میں رسولان گرامی ان فرشتوں سے افضل ہیں جو رسل الملائکہ کہلاتے ہیں۔ اور عام انسان عام فرشتوں پر افضل ہیں۔ اگر چہ رسل الملائکہ عام انسانوں سے افضل ہیں لیکن ان فرشتوں (رسل الملائکہ ) کی عام انسانوں پر فضیلت بوجہ رسول ہونے کے ہے۔ اگر یہ بات انہیں عارض نہ ہوتی تو تفضیل نہ ہوتی۔ اور ان کے مقابلہ میں بھی عام انسان مفضول قرار دیئے گئے۔ ورنہ خصوص انسان ( حضرات انبیائے کرام) سے یہ افضل نہیں ہیں۔ تو معلوم کہ یہ بات عام مخصوص البعض“ ہے۔ یہ اگر قطعی نہیں ہوتی پھر بھی ظنی حکم کیلئے کافی ہوتی ہے۔ اور ظنی حکم یہ نکلا کہ ”انسان“ کی فرشتوں پر تفضیل ہے۔امام سعد الملتہ
امام سعد الملتہ والدین رحمتہ اللہ علیہ نے اسی طرح اس مقام پر تکریر کی ہے۔ اور قاضی بیضاوی نے بھی اس سے تمسک کیا ہے۔ اور بعض دفعہ انسانوں میں سے حضرات انبیاء و مرسلین کرام کا رسل الملائکہ پر افضل ہونے کا حضرت آدم علیہ السلام کے قصہ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کو مسجود ملائکہ بنایا گیا۔ اور بھی کئی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں اور یہی موقف بعض اشاعرہ اور فلاسفہ کا بھی ہے۔ کہ ملائکہ " مطلقاً افضل ہیں جس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں۔ اور بشر لذت حسیہ اور نفسانی شہوات کے باعث گنہ گار ہوتے ہیں۔ اور دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: لَنْ يَسْتَنكفَ المَسِيحُ أنْ يَكُونَ عَبْد اللهِ وَ لَا الْمَلَيْكَةُ المُقَرَّبُونَ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے سے نہ تو حضرت مسیح علیہ السلام ناراض ہوتے ہیں اور نہ ہی مقرب فرشتے۔ اس آیت میں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی ہے۔ (ادنی حضرت مسیح اور اعلیٰ فرشتے ہوئے لہذا فرشتوں کی جب انبیاء کرام پر تفضیل ہوئی تو دوسرے انسانوں پر خود بخود تفصیل ثابت ہو جائے گی )
اس کے علاوہ
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی نصوص سے یہ لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ " کمال یہ ہے کہ کسی میں گناہوں کی کامل قدرت پائی جانے کے باوجود وہ گناہوں سے بچارہے فرشتوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی ۔ ( کیونکہ ان میں لذات حسیہ اور خواہشات نفسانیہ سرے سے ہوتی ہی نہیں جو گناہ کا باعث بنتی ہیں) رہا آیت مذکورہ میں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کا معاملہ وہ تسلیم ہے لیکن یہ ترقی وہ نہیں جو مدعی بنارہے ہیں۔ بلکہ یہ ترقی اس بات میں ہے کہ ماں باپ کے بغیر پیدا ہونے میں ہے، حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ پیدا ہوئے اور فرشتے ماں باپ کے بغیر پیدا کئے گئے ۔ اس موضوع پر گفتگو کافی طویل ہے۔ جو علم کلام میں معروف ومشہور ہے۔
لفظ آل کی تفسیر
آیت میں لفظ دریة لفظ آل سے (جو دو مرتبہ آیا ہے ) بدل واقع ہے۔ اور قول باری تعالیٰ بَعْضُهَا مِن بَعض مبتدا اور خبر ہے اور ذریتہ کی صفت ہونے کی وجہ سے موضع نصب میں ہے۔ یعنی آل ابراہیم اور آل عمران ایک ایسی ذریت ہیں جو متسلسل ہے جن کے بعض بعض سے الگ ہوئے ہیں۔ جس طرح ایک درخت سے مختلف شاخیں نکلتی ہیں ۔ مثلاً حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام عمران سے اور عمران یصہر سے یصہر فاھث سے فاھث لاوی سے لاوی حضرت یعقوب سے اور یعقوب حضرت اسحاق سے۔ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مریم کے بیٹے حضرت مریم عمران کی بیٹی عمران ماشان کے بیٹے اور ماشان کا تعلق یہودا سے ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہےبعض کا بعض سے ہونا
0 Comments