سود خور خاندان کے ساتھ تعلقات پر شرعی رہنمائی






 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسٸلہ کے بارے میں کہ اگر ایک گھرانہ بہت ملنسار ہے سب خاندان والوں کے ساتھ اچھے سے پیش آتا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی پہلو میں سود لیتے ہیں باقاعدہ طور پر تو نہیں لیکن انشورنس یا بینک کے ساتھ معاملات میں انھیں سود ملتا ہے تودیگر خاندان والوں کے لیے ان کے گھر سے کھانے پینے اور ان سے تعلق رکھنا کا شرعاً کیا حکم ہے 


الجواب ۔

سود کے متعلق راہنمائی

سب سے پہلے انہیں خوش اسلوبی سے سود کی برائی بیان کریں کہ وہ رک جائیں تو بہتر ورنہ ان کے ساتھ لین دین کھانا پینا بند کردیں تو بہتر ہے۔

ان کے ساتھ تعلقات

اس کے بعد اگر ان کے  ساتھ  تعلق رکھنے سے مقصود ان کی اصلاح ہو اور   یہ امید ہو کہ تعلقات رکھنے کی صورت میں حلال کی ترغیب اور حرام سے بچنے کی تلقین کرنے سے وہ حرام سے بچ جائے گا تو یہ عین مطلوب اور مقصود ہے۔

تعلقات 

اگر اس شخص  کی اصلاح اس میں ہونے کی امید  ہو کہ اگر اس کے ساتھ  تعلقات ختم کردیے  جائیں تو   یہ اس سے حرام کمائی سے بچ جائے گا،  اور یہ اس کی ترغیب کا باعث بنے گا تو اس کے ساتھ تعلق ختم کرنا بھی جائز ہے، الغرض اپنے حالات، ماحول ،اور تعلق کو دیکھتے ہوئے ان دونوں صورتوں میں سے  مناسب صورت پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

دعوت طعام وغیرہ

باقی رہ گیا دعوت وطعام کا مسئلہ تواگر وہ شخص سودی لین دین کرتا ہو اور اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ  یہی ہو اور وہ اسی  حرام رقم سے دعوت کرے یا  ہدیہ دے، یا اس کی آمدن حرام و حلال سے مخلوط ہو اور حرام غالب ہو  تو اس کی دعوت کا کھانا کھانا یا  ہدیہ قبول کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔  لیکن اگر کسی شخص کی آمدنی حلال اور حرام دونوں ہے  اور وہ حلال رقم سے کھانا کھلاتا ہے، یا اس کی آمدنی تو حرام ہی ہے لیکن وہ کسی اور سے حلال رقم قرض لے کر کھانا کھلاتا ہے،  یا اس کی حلال اور حرام آمدنی دونوں مخلوط ہوں لیکن حلال کی آمدنی غالب ہو تو ان سب صورتوں میں دعوت وطعام جائز ہے ۔

اقوال آئمہ

عارضۃ الاحوذی میں شیخ ابن عربی لاتعلقی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:


"وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع  عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله فأعلمه فعاد إليهم".


(عارضۃ الاحوذی لابن العربی  المالکی (8/116) ابواب البر والصلۃ،ط: دارالکتب العلمیہ)


المحيط البرهاني میں مال حلال اور حرام سے متعلق دعوت قبول کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے ہے:


"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".


(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے:


" أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".


(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)